Sunday 1 January 2012

فرق مملکت کے جلال اور زوال کے درمیان


فرق مملکت کے جلال اور زوال کے درمیان


ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی

مملکت کے شوکت و جلال کی حفاظت ہمیشہ حکمراں اور رعایا سب سے مطلوب ہے، لیکن محض یہ ضرورت اور امن کے دستے کسی مقصد کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ مملکت کے جلال اور زوال کے درمیان بڑا فاصلہ ہے۔ مملکت کے جلال کا مطلب ہے کہ اس میں حکمراں عوام کی خدمت گزار ہو اور عوام اس کا احترام کرے۔ اور مملکت کے زوال کا مطلب ہے کہ اور مملکت کے زوال کا مطلب ہے کہ حکمراں عوام کو تختہٴ مشق بنائے اور عوام اسے قبول نہ کرے۔

مملکت کا جلال اس وقت قائم ہوتا ہے جب مقامی حکومت، کارپوریشن، پارلیمنٹ، مجلسِ شوریٰ اور صدرِ مملکت کاانتخاب عوام نے ان کی لیاقت، قابلیت، صلاحیت، خدمات، امانت داری، اور خدمتِ عوام اور نفع رسانی کی بنیاد پر کیا ہو۔ اور مملکت کا زوال یہ ہے کہ ایسے لوگ حکمراں ہو جائیں جن کا انتخاب نہ ہوا ہو بلکہ وہ تجربہ کے بجائے اعتماد کی بنیاد پر نامزد کئے گئے ہوں، جنہیں کارکردگی کے بجائے قرابت داری کی بنیاد پر، عظیم کارنامہ کے بجائے تقلید کی بنیاد پراور بصیرت کے بجائے ان کی اندھی تقلید پر  انہیں متعیّن کیا گیا ہو۔ یہی لوگ ماحول کو گندہ کرتے ہیں، شریفوں کو پریشان کرتے ہیں، احمقوں کو منصبِ وزارت پر فائز کرت ہیں اور غنڈوں اور بدمعاشوں کی مدد سے اپنا کام نکالتے ہیں۔

مملکت کا جاہ و جلال اس بات پر منحصر ہے کہ فیصلوں میں شورائیت ہو، مالی معاملات میں شفّافیت ہو، اخلاق میں بلندی ہو، اور انسانی تمدّن میں اشتاک کی فضا قائم کرنے کے لئے درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کو سرگرمِ عمل رکھا جائے۔ اور یہی مملکت اگر سیاسی استبداد، مالی فساد، اخلاقی بگاڑ اور تمدّنی پسماندگی کا شکار ہو جائے تو یہ مملکت کا زوال ہے۔  

مملکت کا جلال اس وقت قائم ہوتا ہے جب مملکت کے لوگ اپنے کھیت کی پیداوار کھائیں، اور اپنی مصنوعات پہنیں۔  ملک کے افراد جب دوسروں کی روٹی پر انحصار کرنے لگیں تو یہ مملکت کا زوال ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ) (النحل من الآية 76)، ﴿ترجمہ: اللہ ایک اور مثال دیتا ہے دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے ﴾، وہ ہر صبح دوسرے کی طرف سے روٹی کا انتظار کرتا ہے۔ جب تمہارا دشمن تمہاری طرف روٹی کے ٹکڑے پھینکتا ہے تو یہ تمہارے لئے حقارت، ذلّت اور رسوائی لاتی ہے، تمہارا دشمن تمہارے ارادوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ "فمن لم يكن طعامه من فأسه فلن يكون قراره من رأسه" جو اپنی کلہاڑی کی کمائی سے روزی نہیں حاصل کرتا اس کے فیصلے اس کے اپنے سر سے نہیں ہوتے ہیں۔
 مملکت کی ھیبت اس وقت قائم ہوتی ہے جب قوی و امین اور حفیظ و علیم شخص کا انتخاب ہو یا خزانہ کی امانت سنبھالنے کے لئے اسے دعوت دی جائے جیسا کہ یوسف علیہ السلام کو بادشاہ نے دعوت دی تھی (وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ) (يوسف:54) ﴿بادشاہ نے کہا "اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں" جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا "اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے"﴾۔ یوسف علیہ السلام نے آگے بڑھ کر وطن کی خدمت کی ذمہ داری اٹھائی، اور باوجود اس کے کہ اسی ملکی میں انہیں قید و بند اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا تھا ، انہوں نے مشکل وقت میں لوگوں کو بچانے، ان کا تعاون کرنے اور منصوبہ بندی کرنے کا کام اپنے سر لیا۔  انہیں نے مروّت کا مظاہرہ کیا اس لئے کہ اس وقت یہی راستہ تھا، ملک کو فاقہ کشی، قحط، اور خشک سالی درپیش تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کو اپنے علم اور اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو فائدہ پہونچایا۔ انہوں نے کہا: (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْض إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ) (يوسف: من الآية 55) ﴿"ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں"﴾۔ ملک کی ناکامی یہ ہے کہ خائن کو امین بنایا جائے اور امانت دار کو دور کیا جائے، اور بھیڑیا کے ذریعہ بکری کی نگہبانی کی طرح چور ہی محافظ بن جائے۔ ان کی منطق یہ ہے : (إِنَّ هَٰذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ) (ص:23) ﴿یہ میرا بھائی ہے، اِس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دُنبی ہے اِس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا" ، اور  (يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا) ﴿وہ  ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا﴾ (الكهف من الآية 79).

 اس وقت مملکت کی ہیبت دلوں پر قائم ہوتی ہے جب یہ مملکت تمام مسلم اور غیر مسلم عوام کو اپنی رعایا سمجھے۔   انہیں آزادی حاصل ہوتی ہے، ان کے سامنے عمر رضی اللہ تعلیٰ عنہ کا یہ قول ہوتا ہے : "تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا"۔ اگر ملک پر فریبی لوگ مسلّط ہو جائیں، اور یہ سمجھنے لگیں کہ تمام رعایا ان کی غلام ہے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر ان کی کاریں انہیں کیڑوں مکوڑوں کی طرح روند دیں، ان کی فوج انہیں مکھیوں کی طرح اپنے پیروں سے مسل دیں، یا بھیڑیوں کی طرح ان کے جسم کو نوچ لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، صورتِ حال یہ ہو تو یہ مملکت کا زوال ہے۔

مملکت عوام کو اگر اس طرح تیّار کرے کہ ابناءِ وطن لوگوں کی خبر گیری، زمین کی ترقّی، اور قانون کی پابندی کو اپنا شعار بنائیں، اور خلافِ شرع امور میں وہ حکومت کے لئے دست و بازو بنیں تو اسی سے مملکت کا جلال قائم ہوتا ہے۔ مملکت کی تباہی یہ ہے کہ حکمراں اور عوام مل کر زمیں میں فساد برپا کریں، لوگوں کا قتلِ عام کریں، عوام کو ہراساں کریں، قانون کو پسِ پشت ڈال دیں اور حکومت سے ٹکرا جائیں۔

مملکت جب پر شوکت ہوگی تو حکمراں اور سماج سب مل کر صحراء کو بھی سبزہ زار بنائیں گے، قربانی پیش کرنے کے لئے، اپنا پسینہ بہانے کے لئے، اور اپنا سب کچھ لٹا دینے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ جب مملکت زوال آمادہ ہو جائے تو حکمراں اور عوام سب ہری بھری سرزمین کو لوٹ کر اپن پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے، ہڑپنے، لوٹنے اور پیٹ بھرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگیں گے۔

مملکت کی ہیبت یہ ہے کہ اس کی قوت، اقتدار، فوج اور پولیس کا نظرِ عتاب اندرونی مجرموں اور بیرونی دشمنوں پر ہی رہتا ہے، فوج محافظ ہوتی ہے، حکمراں نہیں ہوتی۔ پولیس خدمت گار ہوتی، تباہی پھیلانے والی نہیں ہوتی۔ عوام بھی مددگا ہوتی ہے ، راہ کا روڑا نہیں ہوتی۔ مملکت اگر زوال آمادہ ہو تو اس میں فوج حکمراں بھی  بن جاتی ہے اور محافظ بھی۔ پولیس عوام کو رسوا کرتی ہے اور حرّیت پسندوں کو ہراساں کرتی ہے۔ ساتھ ہی جرائم اور سماجی انتشار کو بڑھاوادینے میں مددبھی فراہم کرتی ہے۔

مملکت کو پورا جلال یہ ہے کہ وزیر، منتظم، اور عوام سب کو قانون کا یکساں خوف ہوتا ہے، یہاں نہ وزیر کے حق میں کوئی سفارش ہوتی ہے اور نہ ہی عوام پر کوئی ظلم۔ مملکت کے زوال کی یہ پہچان ہے کہ حکمراں، اور رعایا، بڑے چھوٹے، آزاد اور فریبی سب ہی اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ قانون کی حدوں کو توڑ دیں، اور ہر پابندی سے آزاد ہو جائیں۔   

دولت کی ہیبت اس وقت قائم ہوتی ہے جب ہمارے حکمراں ایسے لوگ ہوں جو علماء کا احترام کرنا جانیں، جاہلوں کو علم سے آراستہ کرنے کی فکر کریں، بیماروں کا علاج کریں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں، اور خصوصی ضرورت مندوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں۔ ملک اس وقت تباہ ہو جاتا ہے جب علماء کی توہین ہونے لگتی ہے، جہلاء قیادت پر فائز ہونے لگتے ہیں، بیمارکسمپرسی کی حلات میں ہوتے ہیں، اور ضرورت مندوں کی تکلیف بڑھتی ہی جاتی ہے۔

عرب بہار اور وہ ممالک جن تک ابھی انقلاب کے اثرات نہیں پہونچے ہیں، ان کے سامنے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ شوریٰ، حرّیت، عدل، علم، اخلاق، ایجادات، ہوشمندی، دور اندیشی، قوّت، عزّت و کرامت، اور عالمی ممالک کے درمیان ملک کی آزادانہ حیثیت کے لئے جد وجہد کریں اور ملک کے زوال کا علاج کریں، ظلم ، فساد، بدعنوانی، پسماندگی، تباہی، اقرباء پروری، اور اپنے مخالفین کی سرکوبی کی روش کو ختم کرنے کی جدوجہد کریں۔

ہمار سامنے نبی صلى الله عليه وسلم کی دعاء رہنی چاہئےجو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے، : (اللهم من ولي من أمر أمتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه، ومن ولي من أمتي شيئا فرفق بهم فارفق به،)﴿اے اللہ جو شخص میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ داربنایا جائے پھر ان پر سختی کرے، تو اس پر سختی فرما، اور جو ذمہ داری سنبھالنے کے لئے نرمی کرے تو اس پر نرمی کر﴾

اے میرے قوم آسمان و زمین کے مالک سے دعاء کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں اور یقیناً آپ مستجاب الدعاء ہیں۔
اے وہ لوگو جو مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار ہو، عوام کے نرمی کا معاملہ کرو اور مملکت کے جلال کے ختم ہونے سے پہلے ہی جو کچھ بچ رہا ہے اس کی حفاظت کرو۔
__________ 
یہ  1 صفر 1433 هـ - 26 دسمبر 2011ء کو لکھا گیا۔

 http://urdu.salahsoltan.com/

No comments:

Post a Comment