Sunday 1 January 2012

علا مة قرضاوی : نصاریٰ کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا نیکی کا برتاؤ ہے


علا مة قرضاوی : نصاریٰ کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا نیکی کا برتاؤ ہے


ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی ویب سائٹ پر فتویٰ جاری کیا ہے کہ " مسیحی" نصاریٰ کو مبارکباد دینا نیکی کا برتاؤ ہے۔
علامہ قرضاوی کی ویب سائیٹ کا متن حسبِ ذیل ہے:
محترم علّامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو قارئین میں سے ایک صاحب کی طرف سے سوال موصول ہوا ہے جس میں یہ دریافت کیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔ اسے ہم مسلم معاشرہ کی دینی اقلیتوں کے ساتھ تعلّق کا مسئلہ کہہ سکتے ہیں: کیا  یہ تعلّق صلح یا جنگ کا ہےِ؟ کیا مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلّقات رکھے اور ان کے تہواروں میں انہیں مبارکباد پیش کرے؟

محترم علّامہ نے اس سوال کا حسبِ ذیل جواب دیا ہے:
سیاسی اور معاشرتی تبدیلی ایک امرِ واقعہ ہے، یہ ترقّیات کا لازمی نتیجہ بھی ہے۔ بہت سی اشیاء اور باتیں ایک ہی حالت میں منجمد ہو کر نہیں رہتی ہیں۔ بلکہ اس میں تبدیلی وقع ہوتی ہے اور اس کے تعلق سے لوگوں کا نقطہٴ نظر بھی تبدیلی ہوتا ہے۔ اسی میں سے ایک مسئلہ اسلامی معاشرے میں موجود غیر مسلموں ﴿ذمّیوں﴾کا مسئلہ ہے۔ آج اسے اسلامی معاشرے میں دینی اقلیتوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس طرح کے مسائل اہمّیت اختیار کر چکے ہیں۔ اور ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اپنی قدیم فقہ پر اسی طرح قائم رہیں بلکہ ان معاملات میں عالمی صورتِ حال کی تبدیلی کو ملحوط رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس مسئلہ میں امام ابن تیمیہ سے اختلاف کیا ہے۔ ان کے نزدیک نصاریٰ اور دوسروں کو ان کے تہواروں کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرنا حرام ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ پُر امن معاملہ رکھتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ خاص طور قریبی رشتہ داروں، پڑوسیوں، رفقاء درس، ملازمت کے دوستوں  وغیرہ کے معاملہ میں تو جن سے مسلمانوں کے خصوصی مراسم ہوتےہیں یہ حسنِ سلوک کے ذیل میں آتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں روکا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پسند فرمایا ہے جس طرح اس بات کو پسند کیا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا جائے {إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الممتحنة :8] ﴿اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ﴾. خاص طور پر اس ووقت جب کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں کو ان کے تہواروں پر مبارکباد پیش کرتے ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا} (النساء:86﴾ ﴿اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اُسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے﴾۔

ایسے موقع پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم شارعِ حکیم تبارک و تعالیٰ کے مقاصد کو ملحوظ رکھیں، کلّی مقاصد کی روشنی میں جزئی نصوص کا مطالعہ کریں،اور نصوص کو ایک دوسرے سے مرطوط کر کے دیکھیں۔ قرآن تو کہتا ہے :{لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ} [الممتحنة:8]﴿ اللہ تمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ﴾۔ یہی اصل ہے اور یہی دستور ہے۔
اور اگر ہمیں لگے کہ ذمّیوں کو اس لفظ ﴿ذمّی﴾ سے تکلیف ہوتی ہے  اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ذمّی نام سے موسوم کیا جائے یہ ہمیں پسند نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ہم وطن ﴿برادرانِ وطن﴾ کہا جائے ، تو ہم انہیں کیا جواب دیں گے؟

ہمارا جواب: تمام مسلم فقہاء نے یہ بات کہی ہے کہ: ذمّی دار الاسلام کے شہری ہیں۔ جدید تعبیر میں  اس کا مطلب ہے برادرانِ وطن تو ذمّی کا لفظ اگر ان کے لئے باعثِ تکلیف ہے تو ہم اسے کیوں نہ چھوڑ دیں۔ ہم انہیں برادرانِ وطن کہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذمّی سے زیادہ اہم لفظ جزیہ چھوڑ دیا تھا۔ جزیہ کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ عرب قبیلہ بنو تغلب کے لوگ ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، جزیہ کا لفظ ہمیں پسند نہیں آتا ہے۔ آپ ہم سے جو بھی لیتے ہیں وہ صدقہ کے نام سے لیں خواہ کئی گنا بڑھا کر لیں۔ ابتدا میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تردّد ہوا۔ پھر صحابہ نے ان سے کہا کہ: یہ لوگ طاقتور لوگ ہیں، اگر ہم انہیں چھوڑ دیں تو یہ رومیوں سے مل جائیں گے اور ہمارے لئے نقصاندہ ثابت ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے قبول کر لیا۔

احکام کی بنیاد مسمّیٰ اور مضمون ہے نہ کہ اسم اور عنوان۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ غیر مسلموں کے مسائل کو نئے نقطہٴ نظر سے دیکھیں۔ اور حالات کی تبدیلی کا لحاظ کرتے ہیں ہم فقہِ تیسیر ﴿آسانی پیدا کرنا﴾ اور معاملات کے تدریجی نفاذ کو ترجیح دیں۔

بہت سے علماء اور مشائخ کتابوں کے درمیان جیتے ہیں، وہ واقعاتی دنیا میں زندگی نہیں گزارتے بلکہ وہ عملی فقہ سے بے خبر رہتے ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ  : عملی فقہ ان سے دور ہے کیونکہ ان لوگوں نے پچھلے لوگوں کی کتابیں تو پڑھی ہیں پر  کتابِ زندگی نہیں پڑھی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے ایسے فتوے آتے ہیں جو گویا قبروں سے نکل رہے ہوں !
والله أعلم

No comments:

Post a Comment