ازھر میں اقصیٰ کانفرنس
از قلم: ناجح إبراهيم
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
برادرِ مکرّم ڈاکٹر صلاح سلطان ﴿کوآرڈینیٹر برائے فلسطین و مسجدِ اقصیٰ﴾ نے جمعہ 25 نومبر 2011م کو جامعة الازھر میں ہونے والی کانفرنس کی تیّاری اور انعقاد اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے انتہائی جانفشانی کا مظاہرہ کیا۔
فاضلِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے کرشماتی خوبیوں سے نوازا ہے۔ ان کی شخصیّت انتہائی محبّت اور عزم و حوصلہ کی صفات سے بھر پور ہے۔ ان کی یہ خوبیاں تمام ذمہ داریوں کو کامیابی سے انجام دینے میں ان کے لئے مدد گار ہوتی ہیں ۔۔۔ وہ داعیوں اور اسلامی تحریکات کے تمام حلقوں سے محبّت بھی رکھتے ہیں اور سب میں انہیں محبّت کا مقام بھی حاصل ہے .. وہ ازھر اور دار العلوم کے فاضلین میں سے ایک ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر یہ لیاقت بھی ہے کہ اجتماعات یا کانفرنسوں میں موجود بڑے مجمع کو منظّم رکھیں .. کسی بھی الجھن کے بغیر افراد سے کام لینے کی ان کے اندر زبردست صلاحیت ہے۔
محترم ڈاکٹر احمد الطیّب نے نصرتِ اسلام کے فطری مرکزازھرمیں کانفرنس کے انعقاد کی منظوری دے کر انتہائی حسنِ تعاون کا مظاہرہ کیا۔ بیت المقدس کو یہودیانے کے خلاف چلنے والی مہم کو تو ازھر کی مسجد سے ہی شروع ہونا چاہئے ... یہیں سے مصر کی اُن مہمّات کا آغاز ہوا تھا جس نے صلیبی اور تاتاری سلطنت کو طویل عرصے تک ناکوں چنے چبوائے تھے۔
ازھر ایک جامعہ بھی ہے اور مسجدِ اقصیٰ سے نسبت رکھنے والوں کے لئے ایک مرکز بھی۔
ازھر مسدِ اقصیٰ کا ایک مطیع فرزند ہے ... یہیں اُن عظیم قائدین نے زانوئے تلمّذ تہہ کیا جو مسجدِ اقصیٰ کی مدافعت کرتے رہے اور اسی راستے میں شہید ہوگئے۔
شیخ الازھر کے نمائندے ڈاکٹر مختار المھدی کے خوبصورت الفاظ سن کر مجھے بڑی سعادت محسوس ہوئی۔ انہوں نے کہا: اقصیٰ مسلمانوں کا ترجیحی مسئلہ ہے اور ہم اس سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہو سکتے۔
حماس کا وفد اور سروں پر فلسطینی رومال لپیٹے فلسطینی نوجوان اس پوری کانفرنس کی زینت تھے۔
کانفرنس کے منتظمین کی یہ بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اس کانفرنس میں تمام ہی اسلامی تحریکات کو جمع کیا تھا ...
ازھر کا مقام بلند ہے۔ یہ کسی مخصوص سیاسی حلقہ کی خدمت سے بالاتر ہے ... یہ اس سے بھی بالا تر ہے کہ کسی مخصوص سیاسی گروہ کی تائید یا مخالفت میں قدم اٹھائے یا ایسے گروہی مسائل کو ابھارے جو امّت کے شیرازہ کو منتشر کرنے والا ہو۔
ازھر ہر مسلمان کا ہے ، یہ وطن کے ہر فرزند کا ہے .... کانفرنس اور شرکاء نے اس عہد کو پورا کیا، مسجدِ اقصیٰ کے لئے سب کی آوازیں بلند تھیں، سب ہی کے جذبات موجزن تھے۔ یہ ایک اچھی بات ہے... لیکن ہم عربوں اور مسلمانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ زندہ مسائل کے سلسلہ میں ہم اسے زمینی حقیقت بنانے کے لئے عملی پروگرام بنانے کے بجائے گرجدار آوازوں اور جذبات کے بھرپور اظہار پر ہی اکتفاء کر تے ہیں .... ہمارے جذبات ایسے مستحکم اور منظّم اداروں میں تبدیل نہیں ہو پاتے جو کہ زمین پر کام کریں ... قیامِ اسرائیل سے لے کر آج تک اسرائیلیوں نے اس بات کی منظّم کوشش کی کہ لاکھوں یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کریں، چنندہ یہودیوں اور ان کے علماء کو انہوں نے لا کر اسرائیل میں بسایا ... اسرائیل کی ہر مصیبت اور سخت گھڑی میں انہوں نے مادّی ، ابلاغی، سیاسی، اور عسکری ہر طرح کا تعاون جمع کیا۔
کانفرنس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے میں نے بعض ٹی وی چینلوں میں یہ بات کہی تھی :
مجھے ڈر ہے کہ ہماری صورتی پکار ہماری عملی پکار سے زیادہ بلند نہ ہوجائے ... ہمارا نعرہ ہمارے عمل سے زیادہ طاقتور نہ ہو جائے ... ہمیں اس ناصری تجربہ کو نہیں دہرانا چاہئے کہ اس کا نعرہ اور اس کا ہدف ہمیشہ ملک کے امکانی وسائل کے مقابلہ میں ہت زیادہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت تک نعرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے جب تک کہ اسی جیسا زبردست عمل نہ ہو، ایسا عمل جو ہمارے نعرے کو حقیقت میں بدل دے اور اسی سے اسرائیل ڈرتا ہے۔
میں نے کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:
اگر ہم مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کی ابتداء مصر سے ہونی چاہئے، اگر ہم اسرائیل کی سرکشی کو لگام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا خواہشمند رہنا چاہئے کہ مصری نظام میں امن و امان اور بہتر صورتِ حال قائم رہے ... ہم عظیم مصری فوج سے محبّت کرنے والے بنیں۔
عہدِ جوانی سے ہی اقصیٰ ہمارا شوق ہے، ہمارا مشغلہ ہے اور یہی ہماری دلچسپی ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ ہماری نسل اس آرزو کو پورا نہ کر سکے گی ... خصوصاً اس وجہ سے کہ ہم طویل عرصہ تک قید میں رہے... ظالم اور جابر عرب حکمراں جب بالکل ہی شیر بن گئے، اور اپنی عوام کی گردنوں سے چمٹ گئے تو ہمارے جرٲت مند جوان کھڑے ہوئے اور ان کی کوششوں سے بہارِ عرب کا انقلاب آیا ... ہمارے اندر نئی امید جاگی کہ شاید موت سے پہلے ہم یہ منزل پالیں ... اگ ہم یہ منزل نہ پا سکے تب بھی ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم نے اُس آنے وقت کے لئے بیج بوتے ہوئے اپنی ساری عمر گزار دی ہے ... ہم نے آنے والی نسلوں کو مسجدِ اقصیٰ کی محبّت پر پروان چڑھایا ہے، ہم نے انہیں بتایا ہے کہ یہی مسلمانوں کا پہلا قضیّہ ہے۔
میں نے کہا تھا: یروشلم کی کنجیاں کسی ایسی ریاست کو نہیں مل سکتی جہاں ظلم کی حکمرانی ہو .... کسی ایسے حاکم کو نہیں مل سکتی جو اپنی عوام کے لئے ظلم و جور کا سبب ہو ... اس کی کنجیاں تو عمر بن الخطّاب کی اولاد اور ان کے راستے اور طریقے پر چلنے والوں کو ملیں گی۔
میں نے کہا:
مسلم ممالک میں منعقد ہونے والا ہر آزاد اور شفّاف انتخاب ہمیں اقصیٰ کی بازیابی سے قریب تر کرے گا۔
ہر وہ حاکم جو اپنی رعیّت پر عدل کے ساتھ حکمرانی کرے گا اس کی بازیابی سے قریب تر ہوتا جائے گا۔
بازیافت کا وقت قریب آئے گا ہر اس انقلابی کے ذریعہ جو انقلاب کے وقت تحریک ہوگا او تعمیر کے وقت میں پرسکون اور مصروفِ کار ہوگا۔
ہم آج بیج بو رہے ہیں اور ہمارے بعد کی نسلیں اس کا پھل توڑیں گی ... جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیج بویا اور عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پھل توڑے، آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیت المقدس شریف فتح ہوا۔
ماخذ.. جريدة عقيدتي
No comments:
Post a Comment