Thursday 17 May 2012

Falasteen: Kab Khatm hogi seyah raat?


ڈاکٹر . مصطفى يوسف اللداوي- بیروت -     ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی ، حیدرآباد
فلسطین: کب ختم ہوگی یہ سیہ رات؟
فلسطین کی غلامی کے 64 سال بیت گئے۔ اس عرصہ میں نہ جانے کتنے لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ غلامی کے سائے تلے کئی نسلوں نے آنکھیں کھولی۔ تیرگی کے ختم ہونے کی آس میں کتنے ہی جواں سال بڑھاپے کی حدوں کو پہونچ گئے، کتنے ہی جنگجووں نے اس راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ سحرکی امید میں مزاحمت کار پروان چڑھتے رہے، مخلص فرزندوں نے اس کی خاطر قربانیاں پیش کی اور اب بھی ہر فلسیطینی کے دل میں ایک آرزو زندہ ہے، اپنے وطن واپسی کی آرزو، یہ چاہت ان کے اندر زندہ ہے، ان کے بچے بڑے ہوتے ہیں، ساتھ ہی یہ چاہت بھی دم توڑنے کے بجائے بڑھتی جاتی ہے۔ بوڑھوں اور عمر رسیدہ خواتین کے اندر بھی واپسی کا احساس شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔  بچے سادہ ورق پر اپنی اس آرزو کا نقش چھوڑتے ہیں، بڑے کہانیوں اور حکایات کے ذریعہ اسے ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں، کپڑوں اور پوشاک میں خواتین اس کے نقش و نگار بناتی ہیں، یہی دوشیزاؤں کی آرزو بھی ہے اور اسی کے لیے جوان اپنے ہاتھوں میں بندوق، لاٹھی، چھری اور چاقو اٹھاتے ہیں، اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مجاہدین اور مزاحمت کار بم، توپ اور میزائل سے کھیلتے ہیں۔


یہ ایک خواب ہے! بہت بڑا خواب!! غاصبین کے پنجے اسے نہیں دبا سکتے، قید و بند کی صعوبتیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، اس کے لیے جتنا بھی زور صرف کیا جائے، اسے دلوں سے نہیں نکال سکتیں۔ دوستوں کی سازشیں، اور دشمنوں کی  کوششیں اسے نہیں ختم کر سکتیں۔ فلسطینیوں کی یہ وہ آرزو ہے جو انہیں ورثہ میں ملی ہے، ہر فرد آنے والی نسل کو اس کی وصیت کرتا ہے، یہ وہ غذا ہے جسے شیر خوار بچے ماں کے دوتھ کے ساتھ پیتےہیں۔ قرآنی آیات کے ساتھ یہ سبق سیکھتے ہیں۔ طلوعِ صبح اور سورج کی شعاعوں کے پھیلنے کا انہیں یقین ہے تو اسی طرح یہ بھی یقینی ہے کہ ان کی آرزو پوری ہو کر رہے گی۔ انہیں انتظار ہے! اس دن کا جب وہ اپنی سرزمین کی طرف واپس آئیں گے، اس دن کا جس دن یہ چاہت صرف چاہت نہیں بلکہ حقیقت ہوگی، ایک فسانہ نہیں بلکہ امر واقعہ ہوگا۔


لازما وہ دن آکر رہے گا جب اہل فلسطین پھر سے اپنی سرزمین میں قدم رکھیں گے، اپنے زنگ آلود آہنی کنجیوں سے اپنے پرانے گھروں کے دروازے کھولیں گے۔ یہ دن آج بھی آسکتا ہے اور کل بھی۔ وہ ایک بار پھر اپنے باغوں اور کھیتوں کی طرف پلٹیں گے، سنترے توڑیں گے، خوشبودار پتیاں اور زیتون کے دانے جمع کریں گے۔ وہ پھر سے حیفا کے ساحل، کرمل کے سبزہ زار اور عکا کی چہاردیواری پر جمع ہوں گے۔ یعبد، جنین، قسطل اور حطین سے وہ گزریں گے۔ وہ فلسطین کی قدیم مساجد اور غلامی کی زنجیر میں جکڑی مسجد اقصیٰ میں نمازیں ادا کریں گے۔ ناصرہ کی کلیسا میں ناقوس کی آواز سنائی دے گی۔ مومنین وادیٴ قلط سے ہوتے ہوئے مہد کلیسا تک پہونچیں گے، بیت لحم میں مسیح علیہ السلام کی یاد من منعقد ہونے والے اجتماعات کی یاد تازہ ہوگی۔


کوئی بھی اسرائیلی ہمارے دلوں میں تابندہ واپسی کے خواب کو ختم نہیں کرسکتا۔ کسی صہیونی کے بس  میں نہیں کہ ہمارے خیال کو بیڑی پہنا دے۔ وہ اپنی نسل کے بد اصل لوگوں کو ہماری جگہ آباد کرنے اور ہماری پاکیزہ جگہوں پر انہیں بسانے کی کچھ بھی کوشش کر لیں، ہماری جڑوں سے ہمارا رشتہ نہیں کاٹ سکتے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں پھول کھلتے ہیں، زیتون کے پھل اگتے ہیں، تیل نکالنے والی چکیاں جہاں کبھی نہیں تھمتی ہیں، جو پہاڑیوں سے میدانی علاقوں کی طرف آنے جانے والے گلہ بانوں کی سرزمین ہے۔ یہ زمین ہماری ہے۔ اس کی ہریالی، اس کا پانی، اس کا آسمان، اس کی ہوا ہماری ہے۔ اس زمین پر اس کے مالک، فلسطینی، اصل عرب باشندے، ہی رہ سکتے ہیں۔ اس کو آباد کرنے کا حق صرف اس کے مخلص فرزندوں کو ہے۔ خواہ زمانہ کتنا ہی لمبا سفر طئے کر لے،مسلم فاتحین اور پرانے مسیحیوں کے سوا کسی اور کو یہاں مقام نصیب نہ ہوگا۔


کب تک شکستِ وطن کی یاد زندہ کرتے رہیں گے؟ سالہا سال گزر چکے، ہمارے ساتھ ساتھ اس کی بھی عمر طویل ہوتی جا رہی ہے، بوڑھوں کی عمر کے ساتھ اس کی یاد کی عمر بھی دراز ہو رہی ہے پر ہمارے دلوں میں یہ اپنی یادوں کے نقوش کو مدھم نہیں ہونے دیتی۔ ہمیں بے چین بھی کرتی ہے اور دلوں کو گرماتی  بھی ہے۔ اس کے ہم عصر اپنی زندگی کے لمحات ختم کر کے جا رہے ہیں، بعد میں آنکھیں کھولنے والے بھی موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی وطن کی شکست اور اپنوں کی جدائی کے مناظر نہیں دیکھے ان کے بھی دل چھلنی ہیں۔ وطن لُٹ گیا، وقت گزر نے لگا۔ اب ہم ساتویں دہائی میں ہیں۔ جن بوڑھیوں نے شکست و ریخت کے مناظر دیکھے ہیں ان میں سب سے عمر رسیدہ خاتون کی عمر سے بھی زیادہ ہے یہ مدت! بعضوں نے تو اپنے بچپن ہی سے یہ مناظر دیکھے ہیں۔


زمانہ تیز رفتاری سے چل رہاہے، فلک کی سرپٹ گردش جاری ہے۔ ہر سال ہم اس کی یاد کو زندہ کرتے ہیں۔ قسم قسم کے اجتماعات اور تقریبات سے ہم اس یاد کو زندہ رکھنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہم ہر سال اس کے لیے نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں کہ آنے والے سالوں میں نئے افکار کو رو بہ عمل لائیں گے۔ ہم تصویریں ارو پوسٹر تیار کرتے ہیں، جھنڈے اور پرچم تیار کرتے ہیں۔ بہترین نعرے اور خوبصورت جملے منتخب کرتے ہیں اور ہمارے خطباء، مقررین، سیاسی میدان کے ماہرین، میدانِ کارزار کے قائدین، شعر وسخن اور فکر و فن کے ادا شناس ہر خطہ اور علاقہ میں اس یاد کو زندہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اور ہوتا کیا ہے، وہی مختصر سی زمین اور اپنے حق سے محرومی کی یاد۔


تقریبات اور اجتماعات کا انعقاد کرنے والے ایک دوسرے کو تقریب کی کامیابی کی مبارکباد دیتےہیں گویا مقصد یہی ہے کہ جشن کامیاب ہو جائے، تقریب شاندار رہے، بہترین انداز میں محرومی کی یاد منائی جائے، حاضرین کو جوش دلایا جائے اور ان کو اپنی طرف متوجہ رکھا جائے۔ گویا اپنے وطن کا نام سن کر فلسطینی باشندوں کی بھوک مٹ جائےگی۔ گویا وطن، اس کے شہری و دیہاتی مناظر، اس کی آبادیوں اور اس کے بے پایاں نقوش  کا نام لینے والے خوبصورت ترانے ہی ان کا وطن ہیں۔


        شکست وطن کی تاریخ جتنی طویل ہوتی جارہی ہے، تقاریب اور اجتماعات کا سلسلہ جتنا زیادہ ہوتا جارہا ہے، جس قدر مایوسی بڑھتی جارہی ہے، اس سے زیادہ ذمہ داری بھی بڑھ رہی ہے۔ واپسی کا وقت ٹلتا جا رہا ہے، نصرت خداوندی رک سی گئی ہے، نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے، جان کے نذرانے بڑھتے جا رہے ہیں، مال بھی خرچ ہورہا ہے اور توانائی بھی لگ رہی ہے۔ عوام وہم میں مبتلا ہیں، ان کو دوسری چیزوں میں مصروف رکھا جا رہا ہے۔ عوامی سربراہوں، ریاستی قائدین، وطنی مفادات کے نگہبانوں اور مزاحمت کے سپہ سالاروں نے انہیں  اپنی ذاتی ضروریات کے دائرے  میں محدود کر دیا ہے، امت کی دردمندی کو وہ اپنی مصلحت کے لیے استعمال کر رہے ہیں، انہیں فکر ہے تو یہ کہ وہ اپنے منصب پر باقی رہیں، ان کی خواہش ہے تو یہ کہ ان کی امتیازی حیثیت برقرار رہے، اپنے خطابات سے چمٹے رہیں اور لہولہان امت کے سامنے صدق و اخلاص کا پیکر بن کر ابھریں۔


فلسطینی قوم و نسل قدیم و جدید ہر دور میں زبردست اور عظیم قائدین کو میدان میں لاتی رہی ہے، جو قوم اور ملک میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ میں بھرپور احساس ذمہ داری رکھتے ہیں، جو ان کے شیرازہ کو جمع کرنے اور ان کی آرزووں کی منزل کو حاصل کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں نے اس وطن کے لیے اپنی زندگی کا سودا کیا ہے، اپنے فرزندوں کو اس راہ میں نچھاور کیا ہے، اس راہ میں زیادہ سے زیادہ جانوں کے نذرانے پیش کرنے میں انہوں نے کبھی سُستی نہیں دکھائی ہے۔ وطن کی آزادی کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے اس راہ سے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ قوم جس نے شب و روز اپنا خون بہایا ہے، جن کے شہداء پر اس زمین کا چپہ چپہ گواہ ہے، جس کے عظیم ترین افراد سلاخوں کے پیچھے ہیں، وہ یقیناً ظفر مند ہوگی، اپنی چاہتوں کی منزل کو پا کر رہے گی۔ وطن کے نام پر محض جلسوں اور جلوسوں پر اکتفا نہیں کرے گی، اس کے لیے شکستِ وطن کی یاد محض سالانہ نوحہ کی محفل اور بھولی بسری یاد بن کر نہ رہے گی۔


فلسطینی اس کےلیے تیار نہیں کہ وہ زمین کے بدلے نقشہ پر راضی ہو جائیں، نہ وہ اس کے لیے تیّار ہیں کہ جشن اور جلوس میں مال خرچ کیا جائے، وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہر سال سالانہ یادگار مجلس کے انعقاد کے منتظر رہیں کہ اس میں کچھ مزید نیا پیش کرسکیں۔ ان کا خواب تو یہ ہے کہ شکستِ وطن کی مجلس کے بجائے واپسی کے مظاہر اور فتح کے نقوش رقم کیے جائیں۔  ہم بے گھر ہو کر پردیس میں ایک دوسرے سے ملنے کے بجائے، اپنے وطن کی مٹی، اس کے ساحل، وطن کے نشیب و فراز، اس کے صحرا ء اور سرسبز و شاداب  باغات میں ایک دوسرے سے ملیں۔ اس قوم کے لیے وقت آچکا ہے کہ اپنے وطن واپس ہو، امت کی یہ گھڑی قریب ہے کہ اسے اپنے دشمن پر فتح نصیب ہو، اس کے خواب شرمندہٴ تعیبر ہوں اور اس کے حقوق واپس ملیں۔ ہم کسی دوسری قوم سے کم نہیں ہیں۔ بہت سے وہ لوگ جو پامردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھے، اپنے دشمن پر کامیاب ہوئےاور اپنے وطن لوٹ گئے، ان سے ہم کمزور نہیں ہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے دوسروں سے زیادہ اور بڑھ کر ہے کیونکہ ہم میں حمیت کی کمی نہیں، بہادری کی کمی نہیں، مردانَ حر کی کمی نہیں، طاقت کی کمی نہیں۔ ہماری تاریخ ہمارے کارناموں کی گواہ ہے۔ ہمارا دین ہمیں حوصلہ بخشتا،ہمارے عزائم کو بڑھاتا، ہمیں بلندی کی طرف لے جاتا اور فتح و نصرت کی طرف ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ گامزن کرتا ہے۔