Sunday 25 December 2011

Haqeequi aor khoti jamhuriat ka farq حقیقی اور کھوٹی جمہوریت کا فرق


صحیح اور کھوٹی جمہوریت کا فرق

ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ:اشتیاق عالم فلاحی
صحیح جمہوریت کی ابتداء آزادی سے ہوتی ہے، یہ آزادی شاہراہوں، ملازمتوں، دستور اور قوانین میں موجود ہوتی ہے۔ پھر اس کی زندہ شکل نظمِ مملکت کی پانچ سطحوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلدیہ، کارپوریشن، پارلیمنٹ، مجلسِ شوریٰ اور آخر میں ملک کی سربراہی اس کی مختلف سطحیں ہیں۔ کھوٹی جمہوریت میں نہ یہ آزادیاں ہوتی ہیں، نہ یہ مراحل۔ پوری مملکت محض ایک سربراہِ مملکت کے گرد سمٹ کر رہتی ہے۔ عربوں کا قول ہے : "الزعم مطية الكذب" ﴿دعویٰ جھوٹ کی سواری ہے﴾۔ ایسا لگتا ہے کہ اسی لفظ زعم سے زعیم ﴿سربراہ﴾ مشتق ہے۔ سربراہِ مملکت ﴿زعیم﴾ کی زبان پر "أنا الشعب أنا الشعب" ﴿میں ہی عوام ہوں، میں ہی عوام ہوں﴾ کا نعرہ ہے۔  یا قرآن میں بیان کردہ فرعونی روش ہمارے سامنے آتی ہے کہ : (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي) (القصص: آیت 38 سے) ﴿میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا﴾، اور (مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ) (غافر: من الآية 29) ﴿"میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے" ﴾۔
                      

حقیقی جمہوریت میں عوام کی حکمرانی ہوتی ہےاور بلدیہ، کارپوریشن، پارلیمنٹ، مجلسِ شوریٰ اور سربراہِ مملکت تمام عوام کے خادم ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر کہا  السلام عليك أيها الأجير ﴿سلامتی ہو تم پر اے مزدور﴾ تو انہیں حیرت نہ ہوئی۔ دربار کے لوگوں نے کہا: نہیں بلکہ بادشاہ، تو انہوں نے کہا: نہیں بلکہ مزدور، کیونکہ وہ اپنی رعیّت کی خدمت کے لئے اسی طرح ہمہ وقت مصروف تھے جس طرح مزدور رورزگار فراہم کرنے والے کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔  کھوٹی جمہوریت میں پوری عوام سربراہِ مملکت، صدر، بادشاہ، گورنر یا سلطان کی خادم ہوتی ہے۔ یہ اس لئے محنت کرتے ہیں کہ مملکت کی ساری دولت ان سربراہوں،ان کے اہلِ خاندان، ان کے حاشیہ برداروں، اور ان کے جھنڈے اٹھانے والوں کی جیب میں بھر جائے۔ لیبیا کی عبوری مجلس میں شامل میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اُن کے پاس ایسے دستاویزات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لیبیائی صدر قذافی کے اہلِ خاندان جب جزائر کی طرف فرار ہوئے تو ان کے اخراجات کے لئے اس نے چالیس بلین ڈالر نقد دئے، اس کی نجی دولت کتنی تھی یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ بیرونی ممالک میں اس نے کم از کم دو سو بلین محفوظ کئے تھے! عرب زمین کے بیشتر سربراہوں کی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں ہے، مالیت میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان محبّت، ہمدردی، اور تعاون کا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سب مل کر وطن کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے یہ چار اصول ہوتے ہیں: زمین کو آباد کیا جائے، عوام کی خبر گیری کی جائے، قانون کی پابندی کی جائے اور جب تک خلافِ شریعت بات نہ ہو حکمراں کا تعاون کیا جائے۔ اگر حکمراں منحرف ہو جائیں یا موروثی قانون حق و عدل سے دور ہو تو یہ جائز نہیں کہ افراد یا جماعتیں عوام کو ہراساں کرنا اور ان کو قتل کرنا شروع کردیں، یا زمین میں بربادی اور فساد پھیلائیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ سب لوگ مل کر جمہوری طریقے سے عوام کی خبر گیری کریں، زمین کو آباد کریں، اوررائے دہی کے لئے بیلٹ باکس کا رخ کریں تاکہ اقتدار اور قانون دونوں ہی کو ایک ساتھ بدل ڈالیں۔

کھوٹی جمہوریت میں حکمراں اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور عوام کی زندگی جہنّم بن جاتی ہے، حافظ الاسد نے شام کے سیاہ ترین دنوں میں اپنی کرسی بچانے کے لئے، حماة اور حل میں ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ آج پوری عوام اس کے بیٹے "قصّاب" الأسد کے خلاف نکل پڑی ہے۔ اس نے فوج، پولیس، اور اپنے کارندوں کو آزادی دے دی کہ اجتماعی قتلِ عام کریں، میدان کو قتل گاہ میں تبدیل کردیں، اور خونریز جنگ برپا کریں، اور منظّم طریقے سے خاک و خون کا کھیل کھیلیں۔ یہ وہ حکمرانی ہے جو جھوٹے دعوتے کرتی ہے کہ یہ مزاحمتی نظام ہے۔ گولان کی پہاڑی پر قبضہ کرنے والے صہیونیوں پر اس کی طرف سے ایک بھی گولی نہ چلی، جبکہ احتجاج کرنے والوں کا قصّہ پاک کرنے کے لئے طیّارے، توپ، اور ٹینک میدان میں آگئے۔ ابتداء میں عوام کا نعرہ تھا : "الشعب يريد رحيل النظام" ﴿عوام حکمراں کو بدلنا چاہتی ہے﴾، اب ان کا نعرہ ہے : " الشعب يريد إعدام النظام" ﴿عوام حکمراں کی جان چاہتی ہے﴾۔ اقتدار میں موجود افراد کا شعار مستقل جھوٹ ہے۔ وزیرِ خارجہ جھوٹ کو خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے، من گھڑت باتوں کو تصاویر سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لبنانیوں نے صاف کہا : ہم لبنانی ہیں، ہم شام کا حصّہ نہیں ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ شام کا آمرانہ نظام اپنی پرانی نیند میں ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ لبنان شام کا ایک خوبصورت منطقہ ہے۔

حقیقی جمہوریت میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ ہوتے ہیں۔ ادارے، انجمنیں، پارٹیاں، اور جامعات متنوّع اقسام کی ہوتی ہیں۔ جبکہ کھوٹی جمہوریت میں صرف ایک ہی رنگ ہوتا ہے، یہ اس حد تک کہ ایک عرب ملک کے مختلف شہروں کی تمام بڑی مساجد سربراہِ مملکت ہی کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں کی پوری زندگی سیاہ رات ہوتی ہے، رات اور دن کی گردش نہیں ہوتی، سورج اور چاند، گرمی اور سردی، سیاہ اور سفید یہاں کوئی چیز نہیں۔ اگر سربراہ کو کوئی ایک رنگ پسند ہے تو اس کے سارے رنگ شہنشاہ کے مزاج کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ تمام شناختیں اجتماعی وجود میں ایک رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔


صحیح جمہوریت میں، بلدیہ، کارپوریشن، پارلیمان، مجلسِ شوریٰ، اور صدارت کے منصب کی امیدواری کے ساتھ پہلے مرحلے میں ہی مالی صورتِ حال کو پیش کرنا ہوتا ہے اور ہر خاص و عام کے سامنے اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس یہ کہاں سے آیا؟  مغرب میں کئی سربراہوں نے اس لئے استعفاء دیا کہ انہوں نے معمولی رقمیں غلط طریقے سے خرچ کی اور اس پر ان کا محاسبہ کیا گیا۔  کھوٹی جمہوریت میں سرے سے کوئی مالی جواب دہی نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہاں ضمیرو اخلاق ہوتا ہے۔ سربراہ جس طرح چاہتا ہے مال خرچ کرتا ہے۔  جتنا چاہتا ہے اپنے لئے، اپنے خاندان، کارندوں اور حاشیہ برداروں کے لئے ذخیرہ کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ اس سلسلہ میں اپنے ہونٹوں کو جنبش دے یا کوئی ایک لفظ لکھے تو اسے جس کیفیت کا شکار ہونا پڑتا ہے اس کی عکّاسی شاعر نے کی ہے :
اگر میں سچ کہوں تو زبان کاٹ دی جائے
دستورِ زباں بندی کی جو نہیں کرے گا اس کا انجام مجھے معلوم ہے

اس کے اس جرم کے ساتھ لاکھوں جرم اس کے سر تھونپ دئے جائیں گے۔

انتہائی ظلم و استبداد کے درمیان عوام کی زبان سے کوئی آواز نکلتی ہے تو ایسی ہی آواز جو اس خوف اور بزلی کی جڑوں کو اور مضبوط کرے۔ شاعر کے بقول:
تم سب کو لے کر ہمیشہ بکریوں کے درمیان رہو
سر جھکا کے رہو، اپنی انتہائی ذلت کو قبول کر لو
بھیڑیوں کی بات مان لو، ہم میں وہی زندہ رہے گا جو ان کی بات منے گا
الحذر! میرے بچّے ریوڑ کی روش سے الگ کوئی راستہ نہ نکلنا

حقیقی جمہوریت میں عوام میں ہرفرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کہے:
جامِ زندگی پلانے میں مجھ سے بدسلوکی نہ کر
بلکہ مجھے زہر کا پیالہ بھی پلا تو عزّت کے ساتھ

یا بقولِ شاعر:
جو کچھ مجھے پتہ ہے وہ یہ کہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں ذلّت کے گھوںٹ پیوں
میں باعزّت زندگی چاہتا ہوں، جس میں قید نہ ہو،دہشت نہ ہو، اور انسان کے ساتھ حقیر برتاؤ نہ ہو
اگر میں گروں گا تو اپنی عزّت کی حفاظت کرتے ہوئے،کیفیت یہ ہوگی کہ میری رگوں میں حرّیت پسندوں کا خون کھول رہا ہوگا

حقیقی جمہوریت رائے دہی کے لئے کھڑی قطاروں کو خوشی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ گر می کی شدّت ہو یا سرما کی تکلیف لوگ باہر کے اوباشوں اور اندر کے بدعنوانوں سے بے خوف اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کھوٹی جمہوریت میں غنڈہ عناصر ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں جو سربراہِ مملکت اور اس کی پارٹ کے خلاف رائے دینا چاہیں، اور ان مردوں کو وہ زندگی کی چھوٹ دیتے ہیں جنہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی گردن پر تا قیامت ان لوگوں کے ساتھ اطاعت کی بیعت ہے!


مبارک ہو جشن کی وہ محفلیں جو آزادی اور حقیقی جمہوریت کے لئے تونس ، مراکش، اور مصر میں نظر آّتی ہیں، اور عنقریب تمام دوسرے پڑوسیوں کو بھی یہ دن نصیب ہوں گے۔ سب خوش ہوں گے اور ان کو خوشی کے دن راس آئیں گے۔
 (وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ) (الروم: 4 و5). ﴿اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے، اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے﴾۔

Thursday 15 December 2011

اسلامی تحریکات اور آزمائشی حکمرانی


ڈاکٹرمصطفى يوسف اللداوي
ترجمہ:اشتیاق عالم فلاحی
اسلامی تحریکات اور آزمائشی حکمرانی

پارلیمانی تجربات کی ممانعت تھی ، اسلامی تحریک کی قیادت کی طرف سے  اجازت اور موافقت کے بغیر انفرادی طور پر افراد حکومتوں میں شامل ہوتے تھے۔ کیا اس دور کے بعد اب اسلامی تحریکات کی حکومت کا دور شروع ہو چکا ہے؟ حکمرانی میں ان کی شرکت کے دن آچکے ہیں؟ اسلامی تحریکات پہلے حکومتوں میں شرکت، یا حکومت میں حصّہ داری کی اجازت نہیں دیتی تھیں، ان کے خیال میں موجودہ حکومتی نظام غلط، لا مذہبی، یا آمرانہ اور ظالمانہ، یا خائن اور دوسروں کا آلہٴ کاراور دسروں کے اشاروں پر چلنے والا کمزور نظام تھا۔ چنانچہ اس تنظیمی فیصلے کی خلاف ورزی کرکے حکومتی وزارت میں شامل ہونے والے ہر فرد کو تنظیم سے علٰحدہ یا معطّل قرار دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے جن افراد نے بھی حکومت میں شرکت کی،  ان کی حیثیت انفرادی اور اپنی اسلامی تحریک و تنظیم کی آراء و افکار کی ترجمانی کرنے کے بجائے ان کی ذاتی آراء و افکار کی آئینہ دار تھی۔

البتّہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ انتخابات میں کامیابی سے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنی کارکردگی اور نظامِ تنظیم میں یہ سب سے مستحکم ہیں، ان کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، ان کی اپنی تاریخ ہے، ان کے ممبران اور دست و بازو انتہائی متحرّک ہیں، اور ان کی سرگرمیاں دوسروں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ اب اسلامی قوتیں حکومت کی تشکیل کر رہی ہیں، پالیسیاں بنا رہی ہیں، اپنے ملک کے لئے عمومی لائحہٴ عمل طئے کر رہی ہیں، اور معاشیاتی، ترقّیاتی، اور تعلیمی منصوبے بنا رہی ہیں۔
ان تحریکات کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور ایوانوں میں ان کی نشستیں اکثریت میں ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں عوام کا اعتماد اور قوم کی تائید حاصل ہے۔

آخر کیا بدل گیا کہ اسلامی قوتوں نے سیاسی زندگی میں قدم رکھا۔ گزشتہ سیاست سے کنارہ کشی اور لاتعلّقی کو چھوڑ کر سیاسی زندگی میں پیش رفت اور حکمرانی کے لئے مسابقت میں یہ لگ گئی ہیں۔  کیا سیاست کا مفہوم بدل گیااور  سیاسی افکار بدل گئے کہ اب یہ سیاست قابلِ قبول بن گئی اور یہ قوتیں تمدّنی حکومت اور عصری زندگی کے لئے پیغام رساں بن گئی ہیں؟ بہت سے علماء اور دین کے حاملین ان تحریکات کے لئے یہ جائز سمجھنے لگے ہیں کہ یہ ایسی حکومتوں اور وزارتوں میں شامل ہو جائیں جو اسلام کو اپنا نظام اور طریقہٴ زندگی نہیں تسلیم کرتیں۔ کیا  یہ تحریکات اس بات سے اُکتا گئی ہیں کہ زندگی کے حاشیہ پر دوسروں کی محتاج اور دستِ نگر بن کر رہیں،اپنا کوئی نقطہٴ نظر نہ پیش کر سکیں،  نہ وہ حکومت میں شامل رہیں نہ حزبِ اختلاف بن کر رہیں۔ یا عوام اپنے پرانے حکمرانوں سے گھبرا چکی ہے، ان کی شخصی، خون آشام، استبدادی اور گروہی پالیسیوں سے تھک چُکی ہے اور نظامِ حکمرانی میں تبدیلی چاہتی ہے، اس لئے انہوں نے اُن کی جگہ پر اچّھے لوگوں کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یا پھر  بین الاقوامی سطح پر ان کی راہ میں حائل بڑے کھلاڑیوں کو یہ اطمینان ہو گیا کہ اسلامی تحریکات کے افکار صحیح ہیں، ان کی پالیسیاں مبنی بر اعتدال ہیں، انہوں نے تشدّد اور دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیا ہے، اب یہ دوسروں کو قبول کرنے کے لئے تیّار ہیں، دوسروں کی رعایت کے پیشِ نظر  اب ان میں معنوی تبدیلی آچکی ہے، انہوں نے بہت سی فکری میراث اور اعتقادی مسلّمات سے دوری اختیار کر لی ہے، اور ان سےاب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا،  یہ ویسے ہی ہیں جیسے دوسرے ہیں، دوسروں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہا، اُن ہی کی طرح یہ بھی عہد و میثاق کی پابندی کریں گی، یہ بھی پہلے سے طئے پائے بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کریں گی، اور آج جو صورتِ حال ہے اس کو باقی رکھنے میں ان کے نزدیک کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ اسے بدلنے کا نہ اُن میں ارادہ ہے اور نہ ہی طاقت چنانچہ اُن پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہا اور اُن پر سے عائد پابندی اٹھا لی گئی۔

        بڑی غلطی پر ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ ، مغربی و یورپی ممالک اور عالمی استعمار کے قدیم و جدید کُوچہ گرد اسلامی قوتوں کے ستارہٴ اقبال کی بلندی، اسلامی تحریکات کی کامیابی، ان کی طرف سے تشکیلِ حکومت کی کوشش، وزارتوں کی تقسیم اور پالیسی سازی سے خوش ہوں گے، یا وہ اس بات سے خوش ہوں گے کہ  عرب عوام اس لئے انتخابی صندوق کا رخ کریں کہ آزاد اور شفّاف انتخابات میں حصّہ لے کر اسلامی قوتوں اور ایسی آزاد شخصیّات کو منتخب کریں جو مغرب مخالف پالیسیوں اور امریکہ سے متصادم حکمتِ عملی کے حامل ہوں۔ مغرب خوش نہیں ہے۔ وہ اس وقت بھڑک رہا ہے، اس بیداری سے متنفّرہے بلکہ وہ انتہائی کرب، تکلیف اور رنج میں ہے۔ وہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ گویا کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہو، وہ ابھی نیند اور غفلت میں ہے جس سے وہ جلد ہی بیدار ہوگا۔ لیکن اسے یہ بھی پتہ ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک حقیقت ہے واہمہ نہیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ عملاً ایسا ہونا کل تک محال تھا پر آج نہیں ہے، اور اس کے سامنے بس یہی راستہ ہے کہ  اس صورتِ حال کو قبول کرے  یا اس پر خاموشی اختیار کرے یا جھوٹ اور نفاق کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دھوکہ دہی اور سازش کا جال پھیلانے کے لئے منصوبے بنائے۔

بڑی غلطی پر ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ مغرب نئی حکومتوں کو ان کی حکمرانی کے تجربہ میں کامیاب کرنے کے لئے اس کی طرف دستِ تعاون دراز کرے گا۔ ان کے لئے تعاون کے ایسے دروازے کھولے گا جن سے وہ کامیابی اور امتیازی شناخت حاصل کر سکیں گے۔  اپنے ملک کو ترقّی، خوشحالی، اور شادابی کے راستے پر لے جا سکیں گے۔ ان کی عوام کو آزادی، امن و امان اور کشادگی حاصل ہوگی۔ حکمرانی کے اسلامی تجربہ سے مغرب کبھی بھی خوش نہ ہوگا۔ اسلام پسندوں سے ملتے وقت یا کیمرہ کے سامنے آتے وقت ان کے ہونٹوں پر نظر آنے والا تبسّم محض ایک فریب ہے، یہاں پر وہ ہنسنے کے لئے مجبور ہیں۔ اسلامی تحریکات کے قائدین حکومتی وزیر اور مملکت کے سربراہ بن جائیں تو اس وقت ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے مغربی قائدین کو کوئی خوشی نہ ہوگی۔ اگر مغرب کو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کا اختیار دیا جائے تو وہ الجزائر کی مثال کو دہرائے گا خواہ اس کے لئے خونی کھیل ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ اس کے لئے قابلِ ترجیح یہ ہوگا کہ انتخابات کے نتائج میں الٹ پھیر کر دے، اور حکمرانی کے تاج پر اسلامی قوتوں کے ہاتھ جو جمہورت سجائی جا ئے گی وہ اُسے اتار پھینکے، اس لئے کہ عالم ِ عرب کی کوئی ایسی جمہورت انہیں  پسند نہیں جو ان کے مفادات کی قیمت پر ہو، جو ان کی پالیسیوں کے خلاف ہو، جو ان کے منصوبوں کو تہ و بالا کر دے، جو ان کے ارادوں سے مزاحم ہو، جو عربوں کے وقار اور عرب شناخت کے تحفّط کی کوشش کرے، جواس بات کو نامنظور کرے کہ  عرب کے قیمتی اثاثے اور ان کے بہترین وسائل لُٹیں اور مغرب کا مالِ غنیمت بنیں، معمولی قیمت کے عوض وہ ان پر مسلّط ہو جائے، ان کو اور ان کی مارکیٹ کو کنڑول کرے، اور عربوں کو ان کے اپنے خزانوں اور زمینی معدنیات سے محروم کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ عرب عوام اپنے ان حکمرانوں کے خلاف ہوچکی ہے جنہیں مغرب نے ہمارے ملک پر مسلّط کیا تھا، جنہیں اپنے اہداف کا امین بنایا تھا، جنہیں اپنی پالیسیوں کے نفاذ کا پابند بنایا تھا، اور جنہیں اپنے منصوبوں کا نگہبان اور اپنے مفادات کا خدمت گزار بناکر ان کے منصب کو تحفّظ فراہم کیا تھا، اور انہیں ایسی کھونٹیوں سے باندھ دیا تھا جس نے انہیں ذلّت و رسوائی کا خوگر بنا دیا، وہ ہر رسوائی پر راضی رہے۔ بس ایک ہی شرط ان کے لئے کافی تھی کہ وہ حکمرانی کے منصب سے چمٹے رہیں۔ لیکن عرب مردوں، عورتوں اور جوانوں نے ظلم  و استبداد کے خلاف آواز اٹھا کر پیچھے چلنے سے انکار کر دیا۔ یہ اُن چور، جلاد، دوسروں کے آلہٴ کار ، خائن، غلام، مغرب زدہ اور غیر عربوں کے دلدادہ  حکمرانوں سے اکتا چکے تھے، چنانچہ پوری عرب عوام نے ان کے خلاف انقلاب کا تہیّہ کر لیا۔ زمین سے اُن کی جڑوں کو نکالنے،  اورہماری زمین میں گھُس آئے خود رَو پودوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے یہ نکل پڑے۔ انقلاب نے ان کا صفایا کر دیا، انتخابات نے انہیں دور پھینکا اور قانونی طریقے سے یہ اپنے مناصب سے نکال پھینکے گئے۔ عوام نے اپنی خوشی اور پسند سے دوسروں کو منتخب کیا، ان کا انتخاب کرتے وقت عوام ان کی حقیقت سے آگاہ ہے، ان کے منصوبوں سے بھی واقف ہے، ان سے وابستہ افراد کے کرداروں کو وہ جانتی ہے، ان کے حوصلے اور ان کی سچّی غیرت بھی ان کے سامنے ہے۔ چنانچہ عوام نے انہیں اپنا حکمراں تسلیم کیا، اپنے اداروں کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں دی، انہیں اپنے مستقبل کا امین بنا کر انہیں اپنے وسائل کا نگہبان قرار دیا۔

اسلامی تحریکات نے خیر کے جو بیج بوئے تھے یہ اُس کا نتیجہ ہے۔ جس پاکیزہ ثمر کی انہوں نے نگہداشت کی تھی، جس کی حفاظت کی تھی اور سالہا سال تک جس کی آبیاری کی تھی آج وہی پھل ان کے ہاتھوں میں ہے۔ آج یہ قوم کی آرزو اور ان کے اعتماد کا مرکز ہیں۔ انہیں اپنے چاہنے والوں اور پچھلے حکمرانوں سے نفرت کرنے والوں کے ووٹ ملے ہیں۔ عوام نے یہ جانتے ہوئے ان کا انتخاب کیا ہے کہ یہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ہیں اور اس کے ارادوں کو خاک میں ملانے والے ہیں۔ عوام نے حرّیّت، شرف، اور آزادی حاصل کرنے کے بعد کسی خوف کے بغیر پوری گھن گرج کے ساتھ اپنی بات کہی تاکہ وہ نئی حکومتیں جن سے وابستہ افراد نے بڑی تکلیفیں برداشت کی ہیں، قید و بند کی سزائیں سہی ہیں، قتل کئے گئے ہیں اور وطن بدر کئے گئے ہیں، اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گی۔ بہتر طریقے سے امانت کا حق ادا کریں گی۔ عوام کی خدمت کے لئے اقتدار کا استعمال کریں گی، حکومت کی چمک دمک اور اس کے فتنے ان کے قدم نہ ہلا سکیں گے،  یہ دوبارہ اپنی عوام کو تکلیف اور عذاب میں مبتلا نہیں کریں گی کہ عوام ان سے بھی چھٹکارے کے لئے دعا کرے۔

Islamee tahreekaat aor aazmaishee hukmraanee

ازھر میں اقصیٰ کانفرنس

از قلم: ناجح إبراهيم
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
برادرِ مکرّم ڈاکٹر صلاح سلطان ﴿کوآرڈینیٹر برائے فلسطین و مسجدِ اقصیٰ﴾ نے جمعہ 25 نومبر 2011م کو جامعة الازھر میں ہونے والی کانفرنس کی تیّاری اور انعقاد اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے انتہائی جانفشانی کا مظاہرہ کیا۔

فاضلِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے کرشماتی خوبیوں سے نوازا ہے۔ ان کی شخصیّت انتہائی محبّت اور عزم و حوصلہ کی صفات سے بھر پور ہے۔ ان کی یہ خوبیاں تمام ذمہ داریوں کو کامیابی سے انجام دینے میں ان کے لئے مدد گار ہوتی ہیں ۔۔۔ وہ داعیوں اور اسلامی تحریکات کے تمام حلقوں سے محبّت بھی رکھتے ہیں اور سب میں انہیں محبّت کا مقام بھی حاصل ہے  .. وہ ازھر اور دار العلوم کے فاضلین میں سے ایک ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر یہ لیاقت بھی ہے کہ اجتماعات یا کانفرنسوں میں موجود بڑے مجمع کو منظّم رکھیں .. کسی بھی الجھن کے بغیر افراد سے کام لینے  کی ان کے اندر زبردست صلاحیت ہے۔  

محترم ڈاکٹر احمد الطیّب نے نصرتِ اسلام کے فطری مرکزازھرمیں  کانفرنس کے انعقاد کی منظوری دے کر انتہائی حسنِ تعاون کا مظاہرہ کیا۔ بیت المقدس کو یہودیانے کے خلاف چلنے والی مہم کو تو ازھر کی مسجد سے ہی شروع ہونا چاہئے ... یہیں سے مصر کی اُن مہمّات کا آغاز ہوا تھا جس نے صلیبی اور تاتاری سلطنت کو طویل عرصے تک ناکوں چنے چبوائے تھے۔
ازھر ایک جامعہ بھی ہے اور مسجدِ اقصیٰ سے نسبت رکھنے والوں کے لئے ایک مرکز بھی۔

ازھر مسدِ اقصیٰ کا ایک مطیع فرزند ہے ... یہیں اُن عظیم قائدین نے زانوئے تلمّذ تہہ کیا جو مسجدِ اقصیٰ کی مدافعت کرتے رہے اور اسی راستے میں شہید ہوگئے۔  
شیخ الازھر کے نمائندے ڈاکٹر مختار المھدی کے خوبصورت الفاظ سن کر مجھے بڑی سعادت محسوس ہوئی۔ انہوں نے کہا: اقصیٰ مسلمانوں کا ترجیحی مسئلہ ہے اور ہم اس سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہو سکتے۔
حماس کا وفد اور سروں پر فلسطینی رومال لپیٹے فلسطینی نوجوان اس پوری کانفرنس کی زینت تھے۔
کانفرنس کے منتظمین کی یہ بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اس کانفرنس میں تمام ہی اسلامی تحریکات کو جمع کیا تھا ...  
ازھر کا مقام بلند ہے۔ یہ کسی مخصوص سیاسی حلقہ کی خدمت سے بالاتر ہے ... یہ  اس سے بھی بالا تر ہے کہ کسی مخصوص سیاسی گروہ کی تائید یا مخالفت میں قدم اٹھائے یا ایسے گروہی مسائل کو ابھارے جو امّت کے شیرازہ کو منتشر کرنے والا ہو۔

ازھر ہر مسلمان کا ہے ، یہ وطن کے ہر فرزند  کا ہے .... کانفرنس اور شرکاء نے اس عہد کو پورا کیا، مسجدِ اقصیٰ کے لئے سب کی آوازیں بلند تھیں، سب ہی کے جذبات موجزن تھے۔  یہ ایک اچھی بات ہے... لیکن ہم عربوں اور مسلمانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ زندہ مسائل کے سلسلہ میں ہم اسے زمینی حقیقت بنانے کے لئے عملی پروگرام بنانے کے بجائے  گرجدار آوازوں اور جذبات کے بھرپور اظہار پر ہی اکتفاء کر تے ہیں .... ہمارے جذبات ایسے مستحکم اور منظّم اداروں میں تبدیل نہیں ہو پاتے جو کہ زمین پر کام کریں ... قیامِ اسرائیل سے لے کر آج تک اسرائیلیوں نے اس بات کی منظّم کوشش کی کہ لاکھوں یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کریں، چنندہ یہودیوں اور ان کے علماء کو انہوں نے لا کر اسرائیل میں بسایا ... اسرائیل کی ہر مصیبت اور سخت گھڑی میں انہوں نے مادّی ، ابلاغی، سیاسی، اور عسکری ہر طرح کا تعاون جمع کیا۔ 

کانفرنس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے میں نے بعض ٹی وی چینلوں میں یہ بات کہی تھی :
مجھے ڈر ہے کہ ہماری صورتی پکار ہماری عملی پکار سے زیادہ بلند نہ ہوجائے ... ہمارا نعرہ ہمارے عمل سے زیادہ طاقتور نہ ہو جائے ... ہمیں اس ناصری تجربہ کو نہیں دہرانا چاہئے کہ اس کا نعرہ اور اس کا ہدف ہمیشہ ملک کے امکانی وسائل کے مقابلہ میں ہت زیادہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت تک نعرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے جب تک کہ اسی جیسا زبردست عمل نہ ہو، ایسا عمل جو ہمارے نعرے کو حقیقت میں بدل دے اور اسی سے اسرائیل ڈرتا ہے۔  

میں نے کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:
اگر ہم مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کی ابتداء مصر سے ہونی چاہئے، اگر ہم اسرائیل کی سرکشی کو لگام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا خواہشمند رہنا چاہئے کہ مصری نظام میں امن و امان اور بہتر صورتِ حال قائم رہے ... ہم عظیم مصری فوج سے محبّت کرنے والے بنیں۔

عہدِ جوانی سے ہی اقصیٰ ہمارا شوق ہے، ہمارا مشغلہ ہے اور یہی ہماری دلچسپی ہے۔  
ایسا لگتا تھا کہ ہماری نسل اس آرزو کو پورا نہ کر سکے گی ... خصوصاً اس وجہ سے کہ ہم طویل عرصہ تک قید میں رہے... ظالم اور جابر عرب حکمراں جب بالکل ہی شیر بن گئے، اور اپنی عوام کی گردنوں سے چمٹ گئے  تو ہمارے جرٲت مند جوان کھڑے ہوئے اور ان کی کوششوں سے بہارِ عرب کا انقلاب آیا ... ہمارے اندر نئی امید جاگی کہ شاید موت سے پہلے ہم یہ منزل پالیں ... اگ ہم یہ منزل نہ پا سکے تب بھی ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم نے اُس آنے وقت کے لئے بیج بوتے ہوئے اپنی ساری عمر گزار دی ہے ...  ہم نے آنے والی نسلوں کو مسجدِ اقصیٰ کی محبّت پر پروان چڑھایا ہے، ہم نے انہیں بتایا ہے کہ یہی مسلمانوں کا پہلا قضیّہ ہے۔  

میں نے کہا تھا: یروشلم کی کنجیاں کسی ایسی ریاست کو نہیں مل سکتی جہاں ظلم کی حکمرانی ہو .... کسی ایسے حاکم کو نہیں مل سکتی جو اپنی عوام کے لئے ظلم و جور کا سبب ہو ...  اس کی کنجیاں تو عمر بن الخطّاب کی اولاد اور ان کے راستے اور طریقے پر چلنے والوں کو ملیں گی۔

میں نے کہا:
مسلم ممالک میں منعقد ہونے والا ہر آزاد اور شفّاف انتخاب ہمیں اقصیٰ کی بازیابی سے قریب تر کرے گا۔
ہر وہ حاکم جو اپنی رعیّت پر عدل کے ساتھ حکمرانی کرے گا اس کی بازیابی سے قریب تر ہوتا جائے گا۔  
بازیافت کا وقت قریب آئے گا ہر اس انقلابی کے ذریعہ جو انقلاب کے وقت تحریک ہوگا او تعمیر کے وقت میں پرسکون اور مصروفِ کار ہوگا۔
ہم آج بیج بو رہے ہیں اور ہمارے بعد کی نسلیں اس کا پھل توڑیں گی ...  جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیج بویا اور عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پھل توڑے، آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیت المقدس شریف فتح ہوا۔
ماخذ.. جريدة عقيدتي